پاکستان کی تعمیر اور آج کا نوجوان – حماد صافی

مجھے اس بات کی اُمید ہے کہ اس کرونا کی وبا کے بعد کوئی بھی ہمارا شہری مزدوری کے لئے باہر ملک کا رخ نہیں کریگا . اس ملک کے اندر لا محدود کام کاج اور کاروبار کے مواقع موجود ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے لوگوں کی عرصہ دراز سے یہ زہن سازی کی گئی ہیں کہ پاکستان میں مواقع نہیں ملتے . حیران کن بات یہ بھی ہے کہ ہمارے شہری جتنی خطیر رقم ویزہ اور ٹکٹ کی مد میں دوسرے ممالک کے داخلے اور وقت خریدنے پر لگا دیتے ہیں اگر یہی رقم یہ لوگ اپنے ہی ملک میں چھوٹے موٹے کاروبار میں لگا دیں تو ملکی میعشت کو بھی فائدہ ہوگا اور وقت کی بچت بھی ہوگی . ہمارے یہاں چونکہ پردیس جانا ایک لمبے عرصے سے ماڈرن فیشن رہ چکا ہے لہٰذا پرانے وقتوں کو لیکر ہمارے آج کے نوجوان بھی آنکھوں میں سہانے خواب لیے دبئی اور دوسرے یورپی ممالک کا رخ کرتے ہیں اور پھر بعد میں ایجنٹوں اور کمپنیوں کے معاملات میں پھنس کر سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں . میں نے یہاں ایسے بچے بھی دیکھے ہیں جو شام کو انڈے ابال کر ماہانہ پندرہ سے بیس ہزار کما جاتے ہیں . بندا کام والا ہو تو وہ ہزار روپے میں بھی اپنا کاروبار شروع کرکے کروڑوں میں کھیل جاتا ہے .اُس دن بھی میں ایک ایسے شخص کا انٹرویو لے رہا تھا جو بغیر پیسوں کے کاروبار شروع کروانے کا کمپئین چلا رہا تھا کہ اگر آپکے پاس صرف ہزار روپے بھی ہیں تب بھی اپ اپنا ذاتی کاروبار شروع کر سکتے ہیں بس بندا تگڑا اور کام والا ہو . انکا یہ بھی کہنا تھا کہ کسی بھی کام میں  ناکامی بڑی محنت کے بعد حاصل ہوتی ہے ، صبح دیر سے اٹھنا پڑتا ہے اور کام پر دیر سے جانا پڑتا ہے .اُن کا طنز بجا تھاکیونکہ یہی عادتیں ہمارے پاکستانی نوجوانوں کی مشہور عادتوں میں سے ہیں . انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ہمارے یہاں کے نوجوان سست ہے اور چیلنجزسے جلدی ہار مان جاتے ہیں لہٰذا ہم نے انکے لئے کاروبار کرنا اتنا آسان بنا دیا  کہ ہم انکو یہ تک سکھاتے ہیں کہ اپ نے کاروبار شروع کرنے سے پہلے مٹیریل کہاں سے خریدنا ہے انکی مارکیٹنگ کیسے کرنی ہے انکی پیکنگ کا طریقہ کار کیا ہوگا اور اپنی ذاتی کمپنی اور لوگو پانچ منٹ میں کیسے بنایا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ لیکن اس کے باوجود لوگ لاکھوں روپے قرض لیکر پردیس میں خرچ کرکے مزدور بننے اور خوار ہونے پر بضد ہے تو ایسے میں ہم اس ذہنیت کا علاج کہاں سے کریں . انکی باتیں سن کر میں حیران ہو رہا تھا کہ الله نے ہمیں اس پاکستان میں کس قدر نعمتوں سے نوازا ہے لیکن ہمارے لوگ قدردان نہیں .
میں پردیس جانے کی بات کر رہا تھا کہ پردیس جانا ہمارے معاشرے کا ایک پرانا فیشن رہ چکا ہے . اس دور میں گاؤں محلے یا شہر سے کسی کا بیٹا باہر مزدوری کے لئے جاتا تو یہ بات پورے گاؤں محلے میں مشہور ہوجاتی اور بڑی واہ واہ ہوتی کہ فلاں کا بیٹا پردیس میں ہے یہاں تک کہ ایسے لوگوں کے لئے رشتوں کی قطاریں لگ جاتی تھی یہ جان کر بھی کہ لڑکا پردیس میں ہوگا تو انکی بیٹیاں یہاں کن کے سہارے بیٹھی رہے گی . یہ معاملہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ جہاں لڑکے شادیاں کرکے پردیس مزدوری کے لئے نکل جاتے ہیں اور پانچ سے دس سال تک دوسروں کی بہن بیٹیوں کو سزا کاٹنے کو ملتی ہیں . آج کا دور بدل چکا ہے ۔ اُس دور میں اگر وہاں کوئی ہوٹل میں برتن دھونے کاکام بھی کرتا تو کسی کو پتہ نہ لگتا مگر اب تو انٹرنیٹ کی آمد نے سب کچھ کھول کے رکھ دیا ہے . آپ ابھی یوٹیوب پر سرچ کریں تو پردیسیوں کے حالات جان کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجاینگے . اب جدید دور کا فیشن بھی تبدیل ہوچکا ہے اب پردیس میں جانے والا صرف غریب مزدور کا بچہ ہی ہوگا جو حالات سے مجبور ہوکر خطرناک راستے اختیار کرکے یورپ نکلنے کی کوششوں میں ہوگا. اب ایسے گھرانوں میں لوگ رشتے دینے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچتے ہیں .اب شائد لوگوں کے اندر شعور اور تعلیم کی اہمیت کا احساس پیدا ہوگیا ہے ۔ اب غریب گھرانوں کے بچے گھر بیٹھ کر انٹرنیٹ کی مدد سے لاکھوں کروڑوں روپے کما رہے ہیں ۔ میں ایسے بہت سارے دیہاتی نوجوانوں کو جانتا ہوں جنہوں نے ایک دو سال کے اندر اندر انٹرنیٹ سے پیسے کمانے کے طریقے سیکھے اور آج چار سے پانچ لاکھ روپے گھر بیٹھ کر آرام سے کما رہے ہیں ۔ حکومت نے فری لانسنگ کے ایسے کئی پروگرام مفت شروع کررکھے ہیں جن سے کوئی بھی نوجوان استفادہ حاصل کرسکتا ہے ۔ اس وقت پاکستان فری لانسنگ کی دنیا میں چوتھے نمبر پر اسی وجہ سے پہنچ چکا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد سکلز سیکھ کر مزے سے کما رہی ہیں ۔ میں نے ساتویں جماعت سے لیکر میٹرک تک کے بچوں کو فری لانسنگ کے شعبے میں غیر معمولی کامیابیاں سمیٹتے دیکھا ہے ۔ کراچی کا ایک پچیس سالہ نوجوان اس وقت ای کامرس میں امازون کے شعبے سے ماہانہ پینتالیس ہزارامریکی ڈالر کما رہا ہے اور تقریبا ساٹھ کروڑ پاکستانی روپے کی آفر بھی یہ کم عمر نوجوان ٹھکرا چکا ہے ۔ میں نے جب اس حوالے سے ریسرچ کی تو معلوم ہوا کہ اس شعبے میں تو یہ رقم بھی بہت چھوٹی ہے اس سے کئی گنا ذیادہ رقم دنیا بھر میں ہررنگ و نسل کے لوگ مل کر خاموشی سے بنا رہے ہیں ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جس نوجوان کی بات میں کر رہا ہوں انہوں نے اس اکاونٹ کو اس پوزیشن پر لانے کے لیے دو سے تین سال لگائے اور اپنے آپ کو اس قدر مہنگا کردیا ۔ اس چیز سے اپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آج دنیا انٹرنیٹ کی طاقت سے کہاں تک پہنچ چکی ہے ۔ ۔ بس آخر میں کہنا یہ ہے کہ خدارا اپنے ملک اپنے گھر سے بڑی جنّت اور کوئی نہیں ۔ جس قدر جسمانی اور وزنی سخت کام آپ لوگ باہر ممالک میں کرتے آرہے ہیں اُ ن سے کئی گنا ذیادہ آسان کام دماغ کا استعمال کرکے انٹرنیٹ کے ساتھ کھیلنا ہے ۔ علم حاصل کیجیے سکلز کو پولش کرکے دنیا میں ملک و قوم کا نام روشن کیجیے ۔ اپنے آپکو اسی سرزمین پر سیٹل کیجیے یہاں کام کریں یہاں چھوٹا موٹا کاروبار کریں کم از کم اپنے گھر اپنی مٹی اپنے لوگوں کے بیچ میں تو رہوں گے ..اب یہ نہ کہنا کہ حکومت نے ہمارے لئے کچھ  نہیں کیا اور یہ کہ حکومت کے لوگ نااہل ہے یہاں جو کچھ بھی کرنا ہے اپ نے اپنے لئے خود کرنا ہے . کیونکہ دماغ بھی آپ کا ہے اور فیصلہ بھی آپ کے اپنے ہاتھوں میں ہے ۔

98% LikesVS
2% Dislikes

2 تبصرے “پاکستان کی تعمیر اور آج کا نوجوان – حماد صافی

  1. السلام علیکم بھاٸی میں آفتاب بن منیر کمراٹ سے ہوں ویسے تو آپ کی ساری باتیں کروڑوں میں دینا نقصان سمجھتا ہوں لیکن اس سے بھی بڑ کر یہی بات مجھے بہت اچھی لگی
    کہ اپنے ملک اپنے گھر سے بڑی جنت اور کوٸی نہیں_
    والسلام
    Regard from Kumrat valley

  2. Bilkul DruSt Likha Hammad Bhai Ny …..Yeh Baat Ziyada WaZan Dar Lgi K Hm Ny Jo KuCh Krna Hy KhuD Krna Kisi Ny Hamen Aam Tor K Nhn Deny Blkeh Torny Prengy…

اپنا تبصرہ بھیجیں