بچوں کی تربیت کے اصول اور ننھاپروفیسر حماد صافی

تحریر: اخترایوب خان
کم عمر بچوں کی تربیت کرتے ہم نے بڑوں کو ہی دیکھا ہے لیکن اسکے برعکس جب کوئی چھوٹا بچہ بڑوں کی تربیت کرتا دکھائی دے تو حیرت بھی ہوتی ہے اور تعجب بھی، یہاں اس بچے کا ذکر ہونے جارہا ہے جو کم عمری میں بے پناہ صلاحیتوں کا مالک ہے جس نے اس چھوٹی سی عمر میں نوجوانوں میں فلسفہء خودی کو پروان چڑھاتے ہوئے اُن میں عقابی رُوح کو بیدار کرنے کا جو بیڑہ اٹھا رکھا ہے وہ انتہائی غیر معمولی بات ہے ایک ایسے وقت میں جب ہماری نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار ہوچکی ہو اور وہ نونہالانِ وطن جو اس ملک کا مستقبل ہیں ٹک ٹاک، پب جی اور اسنیک ویڈیو جیسی خرافات میں مبتلا ہوکر اخلاقیات کا جنازہ نکال رہے ہوں وہاں ان میں اقبال کے فلسفہ خودی کو اجاگر کرتے ہوئے انکی سوئی ہوئی غیرت کو جگانا اس بچے کا غیر معمولی کارنامہ ہے جبکہ شورش زدہ قبائلی علاقوں میں جا کر اپنی جان کی پرواہ کیئے بغیر وہاں کے لوگوں کے سامنے اپنے لیکچرز کے ذریعے تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنا ایک الگ قربانی، اس بچے کو ہمارے معاشرے کے لیئے رول ماڈل کہنا بالکل بے جا نہ ہوگا حماد صافی ایک ایسا نام ہے جو کردار کے لحاظ سے ہمارے معاشرے کے دیگر بچوں سے یکسر مختلف ہے جسکا وطنِ عزیز کا نام روشن کرنے کے حوالے سے ہر عمل اپنی مثال آپ ہے یہ پاکستانی عوام کی ان سے بے پناہ محبت ہی ہے جسکی بنیاد پر اسے کم عمری میں نہ صرف ننھے پروفیسر کے خطاب سے نوازا گیا بلکہ ایک دنیا اسے ننھے صحافی کے نام سے بھی جانتی ہے غیر معمولی شہرت کا حامل یہ بچہ اور اسکے لیکچرز عوام الناس میں کس قدر مقبول ہیں اسکا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسکے لاکھوں مداحوں کو اسکی ہر نئی ویڈیو کا شدت سے انتظار رہتا ہے دنیا کی تمام آسائشیں میسر ہونے کے باوجود اس بے وقعت دنیا کی رنگینیوں میں غرق ہونے کے بجائے کم عمری میں اللہ سے لو لگا لینا ایک طرف اللہ رب العزت کا خاص فضل اور انعام ہے تو دوسری طرف اس بچے کو ماں باپ کی طرف سے ملنے والی تربیت اور مخلص اساتذہ کی کاوشیں بھی اس کے پیچھے کار فرما ہیں مگر جہاں اسے سراہنے والوں کی کمی نہیں وہیں چند عاقبت نا اندیش جب ایسے بچوں کو جو ملک اور قوم کا فخر ہوتے ہیں اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی بات کرنے پر دادِ تحسین دینے اور حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے سوشل میڈیا پر انکی حوصلہ شکنی کریں تو پھر دکھ بھی بلا کا ہوتا ہے دنیا بھر کی تمام آسائشوں کے ہوتے ہوئے بھی جب انسان دنیا سے بے رغبت ہو جائے تو یہ اللہ پاک کے فضل کی نشانی ہے اور اللہ رب العزت ایسا فضل اپنے مقرب بندوں پر ہی فرماتے ہیں

ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جب انسان دنیا سے بے رغبت ہو جائے تو یہ اللہ کے قریب ہونے کی نشانی ہے لیکن ہماری بدبختی کا یہ عالم ہے کہ اگر کوئی انسان اپنی عاقبت کو سامنے رکھتے ہوئے دنیا سے جی ہٹا لے تو اسے سراہنے اور اسکی پیروی کرنے کے بجائے تفریح کے طور پر الٹا تمسخر بنانا شروع کر دیتے ہیں ایسے احباب پر انتہائی دکھ تب ہوتا ہے جب انہیں اپنے دائیں بائیں کندھوں پر موجود فرشتوں کے احساس سے بھی عاری دیکھتے ہیں جو انسان کی ایک ایک حرکت کو قلمبند کر رہے ہیں اس سے بڑی بدبختی اور کیا ہوسکتی ہے کہ سورہ الزلزال کی آخری دو آیات بھی ہماری روح کو نہ جھنجوڑ سکے اور ہم اُسکے مفہوم کو ہی سمجھنے سے قاصر رہیں، کتنے افسوس کا مقام ہوگا جب نامہ اعمال کھلنے پر ہم کسی کی اچھی بات کی تائید نہ کرنے پر ایمان کے تیسرے اور سب سے کمزور درجے سے بھی اپنے آپ کو محروم پائیں، یہ بہترین تربیت کا فقدان ہی ہے جسکی وجہ سے بعض اوقات لاعلمی میں جبکہ اکثر اوقات تو قصداً ہی ایسی حرکتیں سرزد ہوتی ہے ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں فراخدلی کے مقابلے میں پست ذہنیت اور تنگ نظر لوگوں کی بہتات رہی ہے بالفرض کسی کو اچھی گاڑی یا اچھے کپڑے میسر آجائیں تو اس پر اعتراض شروع ہو جاتا ہے، کسی کے پاس اچھا گھر ہو تو وہ بھی برداشت نہیں ہوتا، کسی کو تعلیمی لحاظ سے قابل دیکھیں تو اللہ رحم فرمائے اس پر بھی قصیدے، اور تو اور دینی معاملات میں کسی بڑے منصب پر بیٹھے علماء کے چاہنے والے بڑھ جائیں تو اس بیچارے پر بھی فتوؤں کی وہ بوچھاڑ ہو جاتی ہے کہ الامان الحفیظ، کسی کا چلتا کاروبار دیکھ لیں تو آسانی سے وہ بھی ہضم نہیں کر پاتے، ابھی حال ہی میں معروف عالمِ دین مولانا طارق جمیل صاحب نے اپنا برانڈ کیا لانچ کیا بدتمیزی کا نہ تھمنے والا طوفان سر پر اٹھا لیا گیا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ایسے کیوں ہیں آخر کیوں ہم سے کسی کی شہرت، حیثیت، نام اور مقام و مرتبہ برداشت نہیں ہوتا ان ساری خرابیوں کی وجوہات تلاش کرنے کے لیئے بہت سوچ بچار اور غور و فکر کرنے کے بعد یہ عاجز اسی نتیجے پر پہنچ پایا کہ یہ احساسِ کمتری اور نفسیاتی مسلےء سے زیادہ کچھ بھی نہیں اور یہ نفسیاتی معاملہ دو چار افراد کا بھی نہیں رہا بلکہ اب ہمارا معاشرتی مسلہء بنتا جا رہا ہے فالحال مسائل کو ایک طرف رکھتے ہوئے موضوع کی طرف آتے ہیں آج بچوں کی اکثریت ماں باپ کو سکھ دینے کے بجائے جس دکھ اور تکلیف کا باعث بن رہی ہے اس سے ماں باپ نہ صرف پریشان ہیں بلکہ ایسی اولاد سے اب بیزار دکھائی دیتے ہیں دو دن پہلے کی بات ہے جب حیدرآباد کے ایک محلے سے چار بچوں کے اجتماعی جنازے اٹھے یہ وہ بچے تھے جو ماں باپ کے علم میں لائے بغیر مقامی دریا میں نہانے کی غرض سے گئے تھے اور نہاتے ہوئے ڈوب کر ابدی نیند سو گئے جن میں دو سگے بھائی بھی شامل تھے ایک لمحے کے لیئے کوئی سوچے کہ کتنی محنت اور مشقت سے پال پوس کر ماں باپ نے انہیں بڑا کیا ہوگا کیا گزری ہوگی ان پر جب انہیں یہ افسوسناک خبر ملی ہوگی، کون کون سے سہانے خواب ہونگے جو انکے لیئے ماں باپ نے نہیں دیکھیں ہونگے اور کیا رقت آمیز مناظر ہونگے جب انکی میتیں گھروں سے اٹھی ہونگی سوچ کر ہی روح کانپ اٹھتی ہے یہ تو محض ایک حادثہ تھا جسے اس لیئے بیان کر دیا چونکہ عاجز خود ان بچوں کے جنازے میں شریک تھا اس نوعیت کے درجنوں ایسے واقعات ہیں جو آئے روز پیش آتے رہتے ہیں کیا خوبصورت خوبصورت سے پیارے بچے ون ویلنگ جیسے خطرناک شوق میں جان سے ہاتھ دھو کر اپنے والدین کو زندگی بھر کا صدمہ نہیں دے جاتے، کبھی کسی نے سوچا کہ آخر ہماری یہ نسل کہاں نکل پڑی آخر کیوں آج کی نوجوان نسل کا اخلاق بگڑ کر اس حد تک جا پہنچا کہ انہیں ماں باپ کو ساری عمر کے لیئے غم دیکر جانا بھی گراں نہیں گزرتا آخر کیوں ہماری نوجوان نسل اپنی ان صلاحیتوں سے محروم ہوچکی ہے

جو اسے ملک کے لیئے استعمال کرنی تھیں سوچ کر ہی افسوس ہوتا ہے خدا داد صلاحیتوں سے مالا مال جس ذہین بچے کا یہاں ذکر ہو رہا ہے وہ بے معنی اس لیئے نہیں کیونکہ معاشرے کے دوسرے بچوں کی طرف نگاہ جائے تو معاملہ انتہائی سنگین دکھائی دیتا ہے ایسے افراتفری اور بے راہ روی کے اس بھیانک دور میں جہاں ہماری نوجوان نسل خود اپنی ہی تباہی کی طرف گامزن ہے وہیں حب الوطنی کے جذبے سے سرشار سوشل میڈیا کے محاذ پر مستعد کھڑے رہتے ہوئے حماد صافی جیسے بچے کو اپنے لیکچرز کے ذریعے نوجوان نسل کی اخلاقی تربیت کرتے ہوئے اور ان میں حب الوطنی کے جذبے کو ابھارتے دیکھتے ہیں تو واللہ اس بچے کی محنت جو کہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد کارنامہ ہے جس پر فخر ہوتا ہے تاریخ نے وفا کی تو حماد صافی کی ان کاوشوں کو سنہری حروفوں سے لکھا جائے گا
خدا کرے کہ میری ارضِ پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
Asalam o walekum Love you Hamad Safi
Dera bakana goram 6 taso tame pa messenger bandy massage wako kho sorry
Dar majbora som staso number cha ranako
Zma name ziaulhaq dy sir ma da mitric na bad dero cadet collage ta aply wakla ho sir mata cha response cha ranako sir zama fimly poor da hesok cadet collage ke rate admision na raky zaka 6 za gareb yam sir za dera Mena kom da pak army sara ho mala moka na raky sir
Ho it last me taso zehan ta raly sir masara zaror contact waky sir love u sir